Tuesday, August 13, 2019

کچی عمروالی شدید محبت

                          ( افسانہ)                             

جب مجھے اس سے پیار ہوا تو میری شادی کو 2 سال گزر چکے تھے۔یہ نہیں تھا کہ مجھے اس کا پتہ نہیں تھا میں نے بہت سے لوگوں سے اس کی نہ صرف تعریف سنی تھی بلکہ کئی کتابوں میں بھی اس کے حسن کے چرچے پڑھے تھے لیکن میں اک کھلنڈرا سا شخص ،جس کا ماننا ہے کہ 
" دنیا میں اتنا حسن بکھرا ہے کہ انسان کو دوبارہ جنم لینا چاہئیے" ،
 اس کے حسن کے قصے سن کر نظر انداز کرتا رہا لیکن مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ قسمت میں کچھ اورہی لکھا تھا اور قسمت اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کروانے کیلیے حالات اور اسباب خود مہیا کرتی ہے۔ یہ کوئی آج سے 8 یا 9 سال پہلے کی بات ہے کسی شخص نے اس کے سامنے بیٹھ کر اس کی تمام تر جاہ و جلال کے ساتھ اک تصویر بنائی اور وہ تصویر فیس بک پر شیئر کر دی۔ ممکن ہے وہ تصویر لاکھوں نہ سہی ہزاروں لوگوں نے دیکھی ہو گئی پر جب میں نے وہ تصویر دیکھی تو ایسا لگا کہ اس شخص کو قسمت نے نہ  جانے کہاں سے لا کر اس مکمل حسن کے سامنے دو زانوں میرے لیے بٹھایا ہے اور اس نے وہ تصویرمیرے لیے بنوائی ہے کیوں کہ اس تصویر کو جب میں نے دیکھا تو وہ پیکر حسن اک عجب بے نیازی سے کن آنکھوں سے مجھ سے مخاطب ہوا۔
نظرانداز کرنے کی سزا دینی تھی تم کو
تیرے دل میں اتر جانا ضروری ہو گیا تھا

اور مجھے اس سے پہلی نظر میں ہی سفید بالوں کے ساتھ کچی عمر والی شدید محبت ہو گئی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ نے اگر کچی عمر میں شدید محبت نہیں کی تو یقین کریں آپ نے زندگی نہی گزاری بلکہ صرف وقت گزارا ہے اور اگر آپ نے کچی عمر میں محبت کی ہے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ پھر ہر وقت اور ہر محفل میں خیال یار ہی ہوتا ہے۔ کوئی کسی سے سرگوشی کرے تو بھی یہ ہی وہم کے اس کا ذکر ہے کوئی آپ کو غور سے یا رک کر دیکھے تو بھی دل کا  دھڑک جانا کہ کہیں اس کو پتہ تو نہیں چل گیا! لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی ہوتا ہے کہ بہانے بہانے سے خود اس کا تزکرہ کرنا اس سے وابستہ چیزوں اور لوگوں سے انس محسوس کرنا۔ محبوب کو دیکھنے کے بہانے تراشنا۔ دنیا اور مسترد کیے جانے کے خوف سے اظہار محبت نہ کر سکنا لیکن اس کمزوری کو پاکیزہ محبت کا نام دے کر کور کرنا۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کچی عمر کی محبت کی نشانیاں ہیں اور میں نے ان نشانیوں اور اک سکرین شاٹ کے ساتھ اپنی یکطرفہ محبت میں یوں ہی 6 سال گزار دہیے۔ اور پھر اک دن اک فیملی فرینڈ کے فون نے دل و دماغ میں غدر برپا کر دیا جب اس نے بتایا کہ وہ آجکل  "اس" سے قریب ہی نوکری کر رہا ہے تو دل میں اس کو دیکھنے کی سلگتی چنگاریاں اک دم نمرود کی آگ بن کر بھڑک اٹھیں۔ لیکن ارمانوں پرہر دفعہ ہی اوس پڑ گئی کہ جب بھی اس کے شہر کی طرف سفر کیا تو بیوی بچوں نے بھی ساتھ زادہ راہ باندھ لیا اورکیونکہ میں ان کو ساتھ نہیں لے جا سکتا تھا تو دو سال مین اس کی طرف جانے والے راستے کے موڑ پر کھڑا ہو کر یہ ہی کہتا رہا

میں نے پلکوں سے در یار پر دستک دی ہے
میں وہ سوالی ہوں جسے کوئی سوال یاد نہیں۔

اور پھر قسمت نے میرے ساتھ عجیب مذاق کیا کہ میرا شوق دیدار بڑھانے کو اور مجھے ڈی گریڈ (اور کیا کہوں) کرنے کو میرے اس دوست کو اس کے سامنے جا کھڑا کیا اورمیں جو 8 سال سے اس کے ہجر میں مبتلا تھا، مجھے قسمت نے دو دفعہ دریا کے کنارے سے پیاسا واپس بھیج دیا اور جو پیاسہ نہ تھا اس کوپہلی ہی دفعہ سمندر عطا کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 میرے دوست نے نہ صرف ا س تک جاتے راستوں کی تعریف کی بلکہ اس کیلیے اردو لغت کا ہر وہ لفظ استعمال کیا  جو کسی کی خوبصورتی،دلکشی، نزاکت، لطائفت وغیرہ کیلیے استعمال ہو سکتا تھا، لیکن میں اپنے دل میں اٹھتے جذبات کے طوفان کو سنبھلنے کی کوشش میں بول سکا، ایسی بات ہے تو چل اس سے دیکھ کے آتے ہیں،مگر واہ رہے قسمت،دوست بولا ابھی تو اس تک جانے کے راستے بند ہوگئے ہیں، اگلے سال کا پروگرام بناو،اس کی اس بات سے دل میں اٹھنے والا طوفان دل کے زمین پر آنسوں کی برسات بن کے برسا اور محبت کا پودا تناور درخت بن گیا اور اس کے ساتھ ہی ہجر کا 9 سال شروح ہو گیا۔ زندگی روٹیئن میں ٓنے لگی اور بقول منیر نیازی صاحب کے
وقت کس تیزی سے گزرا روزمرہ میں منیر
آج کال ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے۔
اور ان کل ہوتے دنوں میں اک دن بھی ایسا نہیں تھا جب اس کا خیال دل سےنکلا ہواور جومیں اس کے دیدار کے منصوبے بنا رہا تھا، اس وقت قسمت کی ستم ضریفی پر رو پڑا جب اس کا دوست کا فون آیا جس نے اس تک پونچھنے کے انتظامات کرنے تھے کہ میرا تو تبادلہ ہو گیا ہے ۔
جاری ہے